GULAM RABBANI FIDA


اردوادب کاگوہرنایاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔گوہرتریکیروی

غلام ربانی فداؔ
مدیراعلیٰ جہان نعت ہیرور9741277047

منتخب شعر سناؤں گا تمہیں گوہرؔ کے
کبھی تنہائی کی گھڑیوں میں بلالو مجھ کو
گوہرتریکیروی سے پہلا تعارف ظہیررانی بنوری کے توسط سے رانی بنور میں ہوا۔ اْن کی ظاہری وضع قطع، قد و قامت ، لباس اور بات چیت کے سادہ اسلوب ہی سے انداز ہوتا ہے کہ اْن کے اندر ایک خوبصورت شاعر چھپا بیٹھا ہے۔میری حیرت اپنی انتہاکواس وقت چھوگئی جب مجھے جناب گوہرتریکیروی کامجموعہ کلام’’متاع گوہر‘‘ اس حکم کے ساتھ دستیاب ہواکہ چند صفحات سیاہ کروں میں نے جب ورق گردانی شروع کی تو پتہ چلاگوہرتریکیروی کی یہ اس زمانے کی شاعر ہے جب میں عالم ادب میں تودورعالم اجسام میں بھی نہ تھا ۔سنگلاخ چٹانوں سے کس طرح چشمے پھوٹتے ہیں اور ان کا شفاف پانی کس طرح اردگرد کی زمین کو سیراب و سرسبز کرتا چلا جاتا ہے، اس بات کا یقین، گوہرتریکیروی کی غزلوں کو پڑھ کر آیا۔
ٹی ایس ایلیٹ نے فن کو انکشافِ ذات کے برعکس، اخفائے ذات قرار دیا ہے، یعنی فن کار کے فن میں جو شخصیت اظہار پاتی ہے، وہ ظاہر میں نظر آنے والی شخصیت سے مختلف ہوتی ہے، گویا فن ایک پردہ ہے جس میں فنکار کی شخصیت کے اصل خد و خال چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک فنکار ہی پر کیا منحصر ہے، یہاں ایک چھت کے نیچے بیک وقت ایک سے زیادہ افراد بستے ہیں۔ جبھی تواقبال نے کہا:
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں ، واللہ نہیں ہے
تو وہ بھی شخصیت کے ان ہی گوناگوں ابعاد کی طرف اشارہ کر رہا ہوتا ہے۔
گوہرؔتریکیروی ایک مکمل اور بھر پور شاعر ہیں جو سرتاپا، موجِ سخن میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ تعجب اس امر کا ہے کہ وہ اپنی منصبی ذمہ داریوں کے پہلو بہ پہلو کس وقت اتنی خوبصورت شاعری کرتے ہیں۔ شعر جس کا ظاہری اور باطنی حسن قاری کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے نہیں دیتا بلکہ قدم بہ قدم ، یہ موجِ تند اس کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ہے۔ شعر کو’’ سحرِ حلال‘‘ کہا گیا ہے ، یعنی ایک ایسا جادو جو منفی نہیں بلکہ مثبت اثرات دل و دماغ پر مرتب کرتا ہے۔ شعر میں یہ خوبی اْس وقت تک پیدا ہو ہی نہیں سکتی جب تک شاعر کو اپنی باطن کی دنیا کی شہریت حاصل نہ ہو: 
لبِ خاموش پر ہنسی کیسی
خشک پھولوں پہ تازگی کیسی
حوادثات کو ترتیب دے کے رکھ دوں اگر
غم حیات  مکمل کتاب ہوجائے
ہر شاعری کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہوتا ہے۔ باطن سے مراد وہ مضامین و خیالات ہیں جن کا اظہار شعر میں ہوتا ہے اور ظاہر وہ اسلوبِ بیان اور پیرایۂ اظہار ہے جو ایک شاعر اختیار کرتا ہے۔ اچھی شاعری اِن دونوں عناصر کے خوبصورت اور متوازن امتزاج سے عبارت ہے۔بلکہ شاعری ایک وہبی صلاحیت ہے مگر زبان و بیان اور پیرایۂ اظہار اکتسابی شے ہے جس کے لیے ریاضت بنیادی شرط ہے۔ گوہرتریکیروی کے لیے شعر کہنا محض تفریح یا وقت گزارنے کا وسیلہ نہیں بلکہ جس طرح ہوا چلتی ہے یا جیسے دریا بہتے ہیں ، شعر کہنا اور اْس سے لطف اندوز ہونا، گوہرتریکیروی کی فطرت کا حصّہ ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کی یہ خواہش کہ دوسرے بھی اْس کے تجربے میں شریک ہوں ، ایک فطری امرہے۔
افسوس جنوں کے عالم میں اتنی سی حماقت کر بیٹھے
پھولوں سے محبت کرنی تھی کانٹوں سے محبت کر بیٹھے
جہاں حق کے مقابل کفر کی تشہیر دیکھیں گے
وہاں پیوست باطل کے جگر میں تیر دیکھیں گے
جیو تو شیر کی طرح جیو دوروزہ دنیا میں
جبین وقت پر یہ آج بھی تحریر دیکھیں گے
یہ ظلم نہیں تو پھر کیا ہے خود اپنی حقیقت بھول گئے

عروض و قوافی کا علم، زبان و بیان، روزمرہ و محاورات کے اصول اور مختلف اسالیبِ بیان سے آگاہی، انہوںنے بڑی محنت سے حاصل کی ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ اْنہوںنے قدیم اور جدید شاعری دونوں کا مطالعہ بالاستعاب کیا ہے۔ اِس اعتبار سے وہ بقولِ غالب ؔ’’ دودِ چراغ کا قدیم تریاکی ‘‘ ہے۔ 

جس انجمن سے ملے فن کو روشنی گوہرؔ
ادب سے تم بھی اسی انجمن کی بات کرو
خدا سے مانگی ہے میں نے یہی دعا گوہرؔ
جہاں ہوں فن کے اجالے مجھے وہاں رکھنا
اپنا اپنا شعور ہے گوہرؔ
شعر گوئی میں برتری کیسی
گوہرتریکیروی کی شاعری کا بنیادی محرک خوفِ مرگ اور احساسِ فنا ہے، جس نے اْس کی شاعری کی صورت گری کی ہے اور جو روپ بدل بدل کر، بار بار اْ س کے آئینۂ شعر میں چہرہ نما ہوتا ہے۔

ہجوم شوق میں دل کا برا یہ حال ہوا
چمن حیات کا دو دن میں پائمال ہوا
چمن کو چھوڑا تو پھولوں نے زندگی پائی
’’حیات بعد ہوئی پہلے انتقال ہوا‘‘

وہ جب اپنی چند روزہ حیاتِ مستعار کو، زمین و آسمان اور ستاروں کی کروڑوں برس کی زندگی کے پس منظر میں رکھ کر دیکھتا ہے تو اپنے جلد مٹ جانے کا یقین اس کو اْس سفر پر روانہ کر دیتا ہے جس کی آخری منزل دوام و ثبات ہے۔ شاعری بھی دوسرے فنون کی طرح تلاشِ بقا کے سوا کچھ نہیں۔ گوہرتریکیروی جانتے ہیں کہ اندر کی آگ، شاعر کو دھیرے دھیرے جلا کر راکھ کا ڈھیر کر دیتی ہے۔ اسی راکھ سے وہ ققنس کی طرح دوبارہ زندگی پاتا ہے۔ یہ دوسری زندگی جس کی حدیں ابدیت سے جا ملتی ہیں ، سوائے اس کی شاعری کے کچھ اور نہیں ہے:
کشمکش میں غم دوراں کی نہ ڈالو مجھ کو
اس کشاکش کے جہنم سے نکالو مجھ کو
تلخیٔ زیست کی گرمی نے جھلس ڈالا ہے
اپنے خوابوں کے جزیرے میں بسالو مجھ کو
فنا کے اس احساس سے وہ دردمندی جنم لیتی ہے جو شعر میں تاثیر کا جادو جگاتی ہے۔ یہاں ہر شخص خواب دیکھتا ہے۔ خواب زندہ رہنے کے لیے ضروری ہیں۔ خواب، خواب اور پھر شکستِ خواب، یہ کھیل ساری عمر جاری رہتا ہے۔ یہ نہ ہو تو زندگی کسی ویرانہ کا سفر بن کر رہ جائے۔
گوہرتریکیروی کے شعر کو اگر ایک فقرہ میں بیان کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہر اچھی شاعری کی طرح فکر اور جذبہ کے سنگم پر طلوع ہوتا ہے، گوہرتریکیروی کی فکر کا یہ سفر، اس کی اپنی ذات کے نقطہ سے شروع ہو کر ، دائرہ دائرہ پھیلتا حیات و کائنات کو اپنے احاطہ میں لے لیتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ گوہرتریکیروی اپنی غزلوں میں اپنے اردگرد رونما ہوتے سماجی و سیاسی واقعات سے بڑی حد تک لا تعلق دکھائی دیتا ہے۔ دراصل اس کو ہنگامی نوعیت کے مسائل سے دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ اْن عالمگیر اور آفاقی مسائل کے بارے میں سوچتا ہے جو ابتدائے آفرینش سے فکرِ انسانی کا موضوع رہے ہیں۔ اِن گوناگوں موضوعات میں ، محبت کا ملکوتی اور ازلی ابدی جذبہ سرِ فہرست ہے۔ گوہرتریکیروی کے یہاں اس خاص آفاقی جذبے کی مختلف پرتیں اور اْس کے رنگ کچھ اس طرح بکھرے ہوئے ہیں کہ ا۔س کو بالا تامل، محبت کا شاعر کہا جا سکتا ہے۔ محبتوں کاسفر تصوراتی اور حقیقی محبت کی راہداریوں میں محسوسات کا سفر ہے۔ اور روز و شب کے اجالے اور اندھیرے میں یہ ملکوتی جذبہ کہیں محض رومانی ہے، کہیں حقیقی اور کہیں اس کی حدیں ماورائیت سے جا ملتی ہیں۔ کہیں یہ محبت لمسِ بدن اور سپردگیِ تمام سے مشروط ہے: 
دردِوفا، نگاہِ کرم، اور خلوصِ دل
یہ خوبیاں تو بند ہیں لفظی حصار میں
ترے خیال سے فرصت جسے ملی ہوگی
قسم خدا کی وہ قسمت کی برہمی ہوگی
تری نگاہوں کے ساغر سے ہم بجھالیں گے
درمغاں سے میسر جو تشنگی ہوگی
کہاں سے آئی پھولوں میں اتنی رنگینی
کسی کے عارض گلگوں کی روشنی ہوگی

ایسا لگتا ہے کہ گوہرتریکیروی ، محبت کے سنگھاسن پر، گوتم کی طرح آلتی پالتی مارے براجمان ہیں اور اس کے سرپر پھیلا تناور برگد اتنا گھنا بھی نہیں کہ وہ زندگی کے دکھوں کی دھوپ کو اْس تک نہ آنے دے۔
گوہرتریکیروی نے اگرچہ ہنگامی اور وقتی موضوعات سے کوئی خاص تعلق نہیں رکھا مگر خود اس کی اپنی اور اپنے جیسے ہزاروں افراد کی زندگی اس کے سامنے ہے۔ وہ براہِ راست دوسروں کے دکھ درد کو بیان نہیں کرتا بلکہ خود اپنی ذات کے آئینے میں ان کا عکس دکھاتے ہیں۔ عکس چونکہ اصل کے مقابلے میں ٹھوس نہیں ہوتا، اس لیے ان دکھوں کی دلکشی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ گوہرتریکیروی کے نزدیک جذبۂ عشق سمندر کے مانند ہے جو اپنی حدود آپ قائم کرتا ہے:
عجیب ہیں محبت کی پُر پیچ راہیں
چلے بھی نہ تھے دو قدم لڑ کھڑائے
محبت میں کیا کیا نہ صدمے اٹھائے
کبھی خون روئے کبھی مسکرائے
جذبۂ عشق، گوہرتریکیروی کے یہاں اتنا شدید ہے کہ لمحہ بھر کو اْس کے پاؤں زمین پر ٹکنے نہیں پاتے۔جمال کی پیشِ نظر ہر صورت اْ س کے درونِ ذات ایک اتھل پتھل برپا کیے رکھتی ہے۔جب ایک فردِ واحد حیات و کائنات کا مرکزی نقطہ قرار پا جائے تو پھر یہ سفر خود اپنے نقوشِ پا پر چلنے کے مانند ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو گوہرتریکیروی، جادۂ عشق پر خود اپنی تلاش میں نکلا ہوا مسافر ہے۔ سفر میں صوربتیں تو اٹھانی ہی پڑتی ہیں مگر یہ سفر اور رنج اتنا بے صرفہ بھی نہیں کہ اس کو رنجِ رائیگاں سمجھ لیا جائے کیونکہ اس سفر کے اختتام پر ان کی ملاقات خود اپنے آپ سے ضرور ہو گی۔ یہ سفر سلوک کے سفر کی طرح ہے جو اپنی ذات سے شروع ہو کر اپنی ہی ذات پر ختم ہو جاتا ہے۔ 
جس نے چھیڑا ہے دل کو گوہر کے
کوئی فطرت نگار ہے لوگو
یوں بھی گمراہ کیا عشق نے دیوانے کو
کبھی اپنا لیا بُت کو کبھی بُت خانے کو
گوہرتریکیروی کی شاعری ہر صاحب ذوق کے دامن دل کو اپنی جانب اس طرح کھینچ لیتی ہے جیسے لوہامقناطیس کو۔گوہرؔصاحب نے فن کو برائے فن نہیں بلکہ برائے عبادت برتتے ہیں
گوہرؔ وہ کھلادینا گلہائے سخن رنگیں
خود ناز کریں تجھ پہر ارباب دکن برسوں

Make a free website with Yola