انسان نے کی ہائے رے انسان کی تقسیم
جو میرے حلقۂ احباب میں تھا
دکھائی دے رہا ہے قاتلوں میں
ساڑیاں بیوی کی‘بچوں کے کھلونے تو لئے
صرف ماں کی دوا لے کر نہ بیٹا گھر گیا
وہ جب ملک کی سیاسی‘سماجی اور معاشرتی شعبوں میں بدعنوانی‘اخلاقی گراؤٹ‘تعصب اور نسلی منافرت کے تحت فسادات کا سلسلہ دراز ہوتا دیکھتے ہیں تو مضطرب ہوجاتے ہیں اوران فاسدمادوں کی تطہیر کے کیلئے اپنے قلم سے نشتر کا کام ہیں۔ہم نے آزادی کا جو سنہرا خواب دیکھا تھااس کی تعبیر اب تک نظر نہیں آئی۔اس آزادی کے نتیجے میں ملک کا بٹوارہ ہوا۔ایک کی جگہ دو دو پنجاب معرضِ وجود میں آئے۔سیاسی رہنما اورحکومت بھی عوام کی توقع پر پوری نہیں اتری۔عوام کی خدمت کی جگہ ذاتی مفادات اور لوٹ کھسوٹ ان کا وطیرہ بن گیا ہے۔مذہب کے نام پر فتنہ وفساد بھی جاری ہے۔اس ذیل میں یہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:۔
جانے کیسی بہار آئی ہے
شاخ کوئی بھی با ثمر نہ ہوئی
حکمراں یہ کیسے ہیں‘ جو وطن کو گھیرے ہیں
کارواں میں شامل سب چور اور لٹیرے ہیں
بٹوارہ اور بھی کئی زکموں کے ساتھ ساتھ
دو دو ہمارے ملک کو پنجاب دے گیا
ہم کو رہنا ہے مل کے جب اے فداؔ
بے سبب ہی فساد کرتے ہیں
فداؔ صاحب کی نشو ونما اور ذہنی تربیت چونکہ دینی ماحول میں ہوئی ہے اس لئے اسلام پسندی اور فکری طہارت ان کی طبیعت کا خاصہ ہے جس کے اثرات ان کی شاعری پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔تفریحِ طبع کی بجائے انھوں نے شاعری کو اصلاح ِنفس ‘اسلامی تعلیمات‘اخلاقیات اور جذبۂ انسانیت کے فروغ کا وسیلہ بنایا ہے۔اپنے ارفع جذبات کو حرف وصوت کا آہنگ عطا کرتے وقت کہیں کہیں اسلامی تلمیحات تو کہیں کہیں خوؓصورت علائم واستعارات سے کام لیتے ہیں۔غزلوں میں بعض جگہ نعتیہ اشعار کی موجودگی ان کے عشقِ رسول کا پتہ دیتی ہے۔تصدیق کے لئے یہ چند اشعار ملاحظہ ہوں:۔
حق پرستوں کی وہ راہِ پرنور ہے
جان قرباں فداؔ جس پہ کرتا ہوں میں
کشتیاں ہم نے جلائی تھیں نہ جانے کے لئے
جن کے تاریخ کے صفحے پہ نشاں آج بھی ہیں
ہیں پلکیں ہماری منور منور
منڈیروں پہ جن کے ستارے ہیں آنسو
آمد پہ ان کی شاد ہوا یوں دلِ حزیں
جیسے بہار آئے غموں کے دیار میں
پائے نازک کبھی رکھے تھے جہاں پہ تم نے
ریگِ ساحل کے دہانے پہ نشاں آج بھی ہیں
اعزاز مجھے حاصل ہو ان کی غلامی کا
مدت سے فداؔ دل میں یہ جذبہ مچلتا ہے
مجموعی طور پر کہا جائے تو ان کی شاعری ذاتی مشاہدات وتجربات اور داخلی جذبات واحساسات کا ایک آئینہ ہے جس میں زندگی کے سرد وگرم لمحوں کا عکس بھی ہے
تو ان کے دینی‘ ملی اور تعمیری افکار بھی مترشح ہیں۔چونکہ ان کے شعری سفر کی ابھی شروعات ہوئی ہے اس لئے فکری بہاؤ کے ساتھ رطب ویابس کا آجانا بعید از امکان نہیں۔پھر وہ ہمہ دانی کا دعویٰ بھی کرتے بلکہ بڑی انکساری اپنی علمی تشنگی کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:۔
میں سمندر کا سمندر پی گیا
پھر بھی میرے ہونٹ سوکھے رہ گئے
اس کے باوجود انھوں اب تک جتنی پیش رفت کی ہے اس سے ان کا مستقبل روشن نظر آتا ہے ۔ویسے انھیں بھی احساس ہے کہ شاعری بچوں کا کھیل نہیں۔ یہ وہ فن ہے کہ سیروں خون جلانے کے بعد کہیں ایک مصرعۂ تر کی صورت پیدا ہوتی ہے۔اس لئے وہ کہتے ہیں:۔
جب فکر کی آتش میں پہروں کوئی جلتا ہے
تب ذہن کے پردے سے اک شعر نکلتا ہے
تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان میں تخلیقی صلاحیت ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شعری بصیرت اور فکری صلابت کو بھی جلا ملتی رہے گی۔شاعری میں اب تک جو کچھ حاصل کیا ہے وہ اسے اپنے استادِ محترم علامہ میکش اجمیری کی دین سمجھتے ہیں اور جس کا اعتراف اس طرح کیا ہے:۔
زندگی میری شاعری کو فداؔ
سچ ہے میکشؔ کے میکدے سے ملی
مجھے پوری امید ہے کہ فداؔ صاحب کی یہ پیش رفت جاری رہے گی اور اگلے پڑاؤ کے آتے آتے ان کی بصیرت وبصارت کے چراغ کی لویں اور تیز ہوں گی۔
٭٭٭